قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین سکندرحیات خان شیرپاؤ نے کہاہے کہ امن وامان کی خراب صورتحال پر صوبائی حکمرانوں کی غفلت اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے حالات روزبروز گھمبیر ہوتے جار ہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2024کے دوران صوبہ بھر میں دہشت گردی کے 636واقعات رونما ہوئے جس میں تقریباً 257افراد بشمول سیکورٹی فورسزاورعام لوگ نشانہ بنے جوماہانہ اور روزانہ تناسب کے مطابق ہر مہینے 57اورہر دن 02حملے بنتے ہیں،یہ اعداد وشمار تقریباً سال 2009کے واقعات کے برابر ہیں اسی طرح سال2023میں بھی امن وامان کی بد ترین صورتحال اور دہشت گردی کے 631واقعات میں سینکڑوں بے گناہ افراد کوٹارگٹ کیا گیا جو کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں اوران واقعات پرقومی وطن پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کوتشویش ہے مگرصوبائی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں غفلت اورلاپرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وطن کور پشاورمیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ صوبے میں ناقص طرز حکمرانی اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے صوبے کو درپیش چیلنجز کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ انھوں نے بنوں،ڈی آئی خان اور ملاکنڈ ڈویژن سمیت صوبہ بھر میں امن و امان کی صورتحال کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سال 2013سے صوبہ پر حکمرانی کررہا ہے لیکن وہ امن وامان کے مسئلہ سے نمٹنے سمیت صوبہ کے حقوق کے حصول میں بھی ناکام رہی ہے۔انھوں نے صوبہ میں امن وامان کے مسئلہ کے حل اور جائزہ لینے کیلئے گزشتہ روزگورنرخیبرپختونخواکی طرف سے بلائے گئے آل پارٹیز کانفرنس کو خو ٓش آئنداقدام قراردیتے ہوئے کہا کہ امن وامان کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اس بنیادی مسئلہ پر غور کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو بھی خصوصی میٹنگ بلانی چاہیے تھی لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی توجہ صوبہ کے مسائل کی طرف نہیں بلکہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اوراحتجاج پر مرکوزہے۔انھوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے مزیدپھیلاؤاور بھتہ کی وصولی کیلئے ٹیلی فون کالوں کے بڑھتے ہوئے رجحان سمیت اغواء کاروں کو صوبائی حکومت کی طرف سے رقم کی ادائیگی سے عوام میں شدیدتشویش اوربے یقینی پھیل چکی ہے۔ انھوں نے بیرسٹر سیف کے بیان پرردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امن کا قیام محض بیانات سے ممکن نہیں بلکہ اس کیلئے عملی کردار کی ضرورت ہے جس سے صوبائی حکمران عاری ہیں۔انھوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر جہاں پر جج اورسرکاری آفیسران محفوظ نہیں تووہاں پرعوام اپنی حفاظت کیلئے کس کی طرف دیکھے؟انھوں نے مزید کہا کہ بدامنی صرف جنوبی اضلاع اور کرم کا مسئلہ نہیں بلکہ ملاکنڈ ڈویژن سمیت پورا صوبہ اس کی لپیٹ میں ہے اور صوبہ کی تقریباًایک کروڑ 93 لاکھ کی آبادی جوصوبہ کی ٹوٹل آبادی کی 50فیصدبنتی ہے کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے جہاں پرشام ہوتے ہی حکومت کی رٹ ختم اوردہشت گردوں کا راج شروع ہو جاتا ہے۔انھوں نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اگر کوئی بندہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں جاں بحق ہوتا ہے تواسے کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں اور اگر کوئی شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتا ہے توان کے لواحقین کو چند لاکھ روپے سے ٹرخایا جاتا ہے۔انھوں نے ضلع کرم کے سنگین حالات کو حکومت کی توجہ کی متقاضی قرار دیا اور کہا کہ وہاں پر آمد رفت کے راستے بند ہونے کی وجہ سے اشیائے خوراک اورباالخصوص ہسپتالوں میں ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ انھوں نے صوبہ میں جاری امن وامان کی غیر یقینی صورتحال اورسیاسی عدم استحکام کو صوبہ اورعوام کیلئے انتہائی نقصان دہ امرقراردیا اور کہا کہ ان حالات پر قابو پانے کیلئے مرکزی وصوبائی حکومتوں اور قانون نافذکرنے والے اداروں کواپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اوراس سلسلے میں سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے بصورت دیگرحالات کنٹرول سے باہر ہونے کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر صوبائی حکومت نے امن و امان کے مسئلہ پرمزید غفلت اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اوراس مسئلے کے فوری حل کیلئے اقدامات نہیں کئے تو پھر قومی وطن پارٹی عوام کے ساتھ مل کران کے خلاف صوبہ بھرمیں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کرے گی۔
Leave A Comment